Thursday, 30 June 2011

fifteen

visit 4 rad e razakhaniyat data

huge data   ............... www.razakhaniyat.weebly.com 
picture data    ..........  www.deobandcamp.weebly.com






AYAT # FIFTEEN

(سورة الأحزاب)
اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا    ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا   Č۝

پیغمبر مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں ان سب کی مائیں ہیں اور رشتہ دار آپس میں کتاب اللہ کی رو سے مسلمانوں اور مہاجرین سے ایک دوسرے (کے ترکے) کے زیادہ حقدار ہیں مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے احسان کرنا چاہو (تو اور بات ہے) یہ حکم کتاب (یعنی قرآن) میں لکھ دیا گیا ہے
 (TARJUMA MOULANA FATHY MOUHAMMAD JAHLANDRI)

پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والے (١) ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں (٢) اور رشتہ دار کتاب اللہ کی رو سے بنسبت دوسرے مومنوں اور مہاجروں کے آپس میں زیادہ حقدار (٣) (ہاں) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہو (٤) یہ حکم (الٰہی) میں لکھا ہے (٥)۔
 (MOULANA JUNAA GAREE)

نبی سے لگاؤ ہے ایمان والوں کو زیادہ اپنی جان سے ف ٦  اور اس کی عورتیں ان کی مائیں ہیں ف٧ اور قرابت والے ایک دوسرے سے لگاؤ رکھتے ہیں اللہ کے حکم میں زیادہ سب ایمان والوں اور ہجرت کرنے والوں سے مگر یہ کہ کرنا چاہو اپنے رفیقوں سے احسان ف ٨ یہ ہے کتاب میں لکھا ہوا ف۹
 (TARJUMA MEHMOOD UL HASAN)

یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے (ف۱٤) اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں (ف۱۵) اور رشتہ والے اللہ کی کتاب میں ایک دوسرے سے زیادہ قریب ہیں (ف۱٦) بہ نسبت اور مسلمانوں اور مہاجروں کے (ف۱۷) مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں پر احسان کرو (ف۱۸) یہ کتاب میں لکھا ہے (ف۱۹)
 (AHMED RAZA KHAN)


TAFSIR



(ERTAFSEER IBAN E KAS)
تکمیل ایمان کی ضروری شرط
 چونکہ رب العزت وحدہ لاشریک کو علم ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر خود ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ مہربان ہیں۔ اس لئے آپ کو ان کی اپنی جان سے بھی انکا زیادہ اختیاردیا۔ یہ خود اپنے لئے کوئی تجویز نہ کریں بلکہ ہر حکم رسول کو بدل وجان قبول کرتے جائیں جیسے فرمایا آیت ( فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا      65؀) 4-النسآء:65)، تیرے رب کی قسم یہ مومن نہ ہونگے جب تک کہ اپنے آپس کے تمام اختلافات میں تجھے منصف نہ مان لیں اور تیرے تمام تر احکام اور فیصلوں کو بدل وجان بکشادہ پیشانی قبول نہ کرلیں۔ صحیح حدیث شریف میں ہے اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی باایمان نہیں ہوسکتا۔ جب تک کہ میں اسے اس کے نفس سے اس کے مال سے اسکی اولاد سے اور دنیا کے کل لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ ایک اور صحیح حدیث میں ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا یارسول اللہ آپ مجھے تمام جہان سے زیادہ محبوب ہیں لیکن ہاں خود میرے اپنے نفس سے۔ آپ نے فرمایا نہیں نہیں عمر جب تک کہ میں تجھے خود تیرے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں ۔ یہ سن کر جناب فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ فرمانے لگے قسم اللہ کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے ہرچیز سے یہاں تک کہ میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں آپ نے فرمایا اب ٹھیک ہے ۔ بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تمام مومنوں کا زیادہ حقدار دنیا اور آخرت میں خود ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ میں ہوں ۔ اگر تم چاہو تو پڑھ لو آیت ( اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا    ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا   Č۝) 33-الأحزاب:6) سنو جو مسلمان مال چھوڑ کر مرے اس کا مال تو اس کے وارثوں کا حصہ ہے۔ اور اگر کوئی مرجائے اور اسکے ذمہ قرض ہو یا اس کے چھوٹے چھوٹے بال بچے ہوں تو اس کے قرض کی ادائیگی کا میں ذمہ دار ہوں اور ان بچوں کی پرورش میرے ذمے ہے۔ پھر فرماتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات حرمت اور احترام میں عزت اور اکرام میں بزرگی اور عظام میں تمام مسلمانوں میں ایسی ہیں جیسی خود کی اپنی مائیں۔ ہاں ماں کے اور احکام مثلا خلوت یا ان کی لڑکیوں اور بہنوں سے نکاح کی حرمت یہاں ثابت نہیں گو بعض علماء نے ان کی بیٹیوں کو بھی مسلمانوں کی بہنیں لکھاہے جیسے کہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے مختصر میں نصاً فرمایا ہے لیکن یہ عبارت کا اطلاق ہے نہ حکم کا اثبات ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ وغیرہ کو جو کسی نہ کسی ام المومنین کے بھائی تھے انہیں ماموں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے تو کہا ہے کہہ سکتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ حضور صلي الله عليه وسلم کو ابو المومنین بھی کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ یہ خیال رہے کہ ابو المومنین کہنے میں مسلمان عورتیں بھی آجائیں گی جمع مذکر سالم میں باعتبار تغلیب کے مونث بھی شامل ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا فرمان ہے کہ نہیں کہہ سکتے امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قولوں میں بھی زیادہ صحیح قول یہی ہے۔ ابی بن کعب اور ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما کی قرأت میں امھاتھم کے بعد یہ لفظ ہیں وھو اب لھم یعنی آپ ان کے والد ہیں۔ مذہب شافعی میں بھی ایک قول یہی ہے۔ اور کچھ تائید حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ آپ نے فرمایا میں تمہارے لے قائم مقام باپ کے ہوں میں تمہیں تعلیم دے رہا ہوں سنو تم میں سے جب کوئی پاخانے میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرکے نہ بیٹھے۔ نہ اپنے داہنے ہاتھ سے ڈھیلے لے نہ داہنے ہاتھ سے استنجاکرے۔ آپ تین ڈھیلے لینے کا حکم دیتے تھے اور گوبر اور ہڈی سے استنجا کرنے کی ممانعت فرماتے تھے (نسائی وغیرہ ) میں دوسرا قول یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو باپ نہ کہا جائے کیونکہ قرآن کریم میں ہے آیت ( مَا كَانَ مُحَـمَّـدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا   40؀ۧ) 33-الأحزاب:40) حضور تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ بہ نسبت عام مومنوں مہاجرین اور انصار کے ورثے کے زیادہ مستحق قرابتدار ہیں۔ اس سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار میں جو بھائی چارہ کرایا تھا اسی کے اعتبار سے یہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے تھے اور قسمیں کھا کر ایک دوسروں کے جو حلیف بنے ہوئے تھے وہ بھی آپس میں ورثہ بانٹ لیا کرتے تھے۔ اس کو اس آیت نے منسوخ کردیا۔ پہلے اگر انصاری مرگیا تو اس کے وارث اس کی قرابت کے لوگ نہیں ہوتے تھے بلکہ مہاجر ہوتے تھے جن کے درمیان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی چارہ کرادیا تھا۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ یہ حکم خاص ہم انصاری ومہاجرین کے بارے میں اترا ہم جب مکہ چھوڑ کر مدینے آئے تو ہمارے پاس مال کچھ نہ تھا یہاں آکر ہم نے انصاریوں سے بھائی چارہ کیا یہ بہترین بھائی ثابت ہوئے یہاں تک کہ ان کے فوت ہونے کے بعد ان کے مال کے وارث بھی ہوتے تھے۔ حضرت ابو بکر کا بھائی چارہ حضرت خارجہ بن زید رضی اللہ تعالٰی کے ساتھ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فلاں کے ساتھ۔ حضرت عثمان کا ایک زرقی شخص کے ساتھ ۔ خود میرا حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالٰی کے ساتھ ۔ یہ زخمی ہوئے اور زخم بھی کاری تھے اگر اس وقت ان کا انتقال ہوجاتا تو میں بھی ان کا وارث بنتا۔ پھر یہ آیت اتری اور میراث کا عام حکم ہمارے لئے بھی ہوگیا۔ پھر فرماتا ہے ورثہ تو ان کا نہیں لیکن ویسے اگر تم اپنے مخلص احباب کے ساتھ سلوک کرنا چاہو تو تمہیں اخیتار ہے۔ وصیت کے طور پر کچھ دے دلا سکتے ہو۔ پھر فرماتا ہے اللہ کا یہ حکم پہلے ہی سے اس کتاب میں لکھا ہوا تھا جس میں کوئی ترمیم وتبدیلی نہیں ہوئی۔ بیچ میں جو بھائی چارے پر ورثہ بٹتا تھا یہ صرف ایک خاص مصلحت کی بنا پر خاص وقت تک کے لئے تھا اب یہ ہٹا دیا گیا اور اصلی حکم دے دیا گیا واللہ اعلم۔


(TAFSEER MOULANA SLAH UDDIN YOUSUF)
٦۔١ نبی اپنی امت کے لئے جتنے شفیق اور خیر خواہ تھے، محتاج وضاحت نہیں۔ اللہ تعالٰی نے آپ کی اس شفقت اور خیر خواہی کو دیکھتے ہوئے اس آیت میں آپکو مومنوں کے اپنے نفس سے بھی زیادہ حق دار، آپ کی محبت کو دیگر تمام محبتوں سے فائق تر اور آپ کے حکم کو اپنی تمام خواہشات سے اہم قرار دیا ہے۔ اس لئے مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ آپ ان کے جن مالوں کا مطالبہ اللہ کے لئے کریں، وہ آپ پر نچھاور کر دیں چاہے انہیں خود کتنی ہی ضرورت ہو۔ آپ سے اپنے نفسوں سے بھی زیادہ محبت کریں (جیسے حضرت عمر کا واقعہ ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو سب پر مقدم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو سب سے اہم سمجھیں۔ جب تک یہ خود سپردگی نہیں ہوگی (فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤمِنُوْنَ) (النساء۔ ٦٥) کے مطابق آدمی مومن نہیں ہوگا۔ اسی طرح جب تک آپ کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی وہ صحیح مومن نہ ہوگا۔
٦۔٢ یعنی احترام و تکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں
٦۔٣ یعنی اب مہاجرت، اخوت کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہوگی۔
٦۔٤ ہاں غیر رشتہ داروں کے لئے احسان اور بر و صلہ کا معاملہ کرسکتے ہو، نیز ان کے لئے ایک تہائی مال میں وصیت بھی کر سکتے ہو۔
٦۔٥ یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے، گو عارضی طور پر مصلحتًا دوسروں کو بھی وارث قرار دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اسے منسوخ کر کے پہلا حکم بحال کر دیا ہے۔ اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی تو لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ۔ کی رو سے مومن نہیں، ٹھیک اسی طرح اطاعت رسول میں کوتاہی بھی لا یومن احدکم حتی یکون ھواہ تبعا لما جئت بہ کا مصداق بنا دے گی۔
٦۔۲یعنی احترام و تکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں بھی ہیں۔
٦۔۳یعنی اب مہاجرت، اخوت اور موالات کی وجہ سے وراثت نہیں ہوگی۔ اب وراثت صرف قریبی رشتہ کی بنیاد پر ہی ہوگی۔
٦۔٤ہان تم غیر رشتے داروں کے لیے احسان اور بر و صلہ کا معاملہ کرسکتے ہو، نیز انکے لیے ایک تہائی مال میں سے وصیت بھی کر سکتے ہو۔
٦۔۵ یعنی لوح محفوظ میں اصل حکم یہی ہے گو عارضی طور پر مصلحتا دوسروں کو بھی وارث قرار دے دیا گیا تھا، لیکن اللہ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اسے منسوخ کر کے پہلا حکم بحال کر دیا گیا ہے۔

( MOULANA SHABIR AHMED USMANI
ف ٦  مومن کا ایمان اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک شعاع ہے اس نور اعظم کی جو آفتاب نبوت سے پھیلتا ہے۔ آفتاب نبوت پیغمبر علیہ الصلواۃ والسلام ہوئے۔ بنا بریں مومن (من حیث ھو مومن) اگر اپنی حقیقت سمجھنے کے لئے حرکت فکری شروع کرے تو اپنی ایمانی ہستی سے پیشتر اس کو پیغمبر علیہ السلام کی معرفت حاصل کرنی پڑے گی۔ اس اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ نبی کا وجود مسعود خود ہماری ہستی سے بھی زیادہ ہم سے نزدیک ہے اور ــــ اگر اس روحانی تعلق کی بناء پر کہہ دیا جائے کہ مومنین کے حق میں نبی بمنزلہ باپ کے بلکہ اس سے بھی بمراتب بڑھ کر ہے تو بالکل بجا ہوگا۔ چنانچہ سنن ابی داؤد میں " انما انا لکم بمنزلۃ الوالد الخ۔" اور ابی بن کعب وغیرہ کی قرآت میں آیت "النبی اولی بالمومنین الخ کے ساتھ وھو اب لھم "کا جملہ اسی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔ باپ بیٹے کے تعلق میں غور کرو تو اس کا حاصل یہ ہی نکلے گا کہ بیٹے کا جسمانی وجود باپ کے جسم سے نکلا ہے اور باپ کی تربیت و شفقت طبعی اوروں سے بڑھ کر ہے لیکن نبی اور امتی کا تعلق کیا اس سے کم ہے؟ یقینا امتی کا ایمان و روحانی وجود نبی کی روحانیت کبریٰ کا ایک پر تو اور ظل ہوتا ہے اور شفقت و تربیت نبی کی طرف سے ظہور پذیر ہوتی ہے ماں باپ تو کیا تمام مخلوق میں اسکا نمونہ نہیں مل سکتا۔ باپ کے ذریعہ سے اللہ تعالٰی نے ہم کو دنیا کی عارضی حیات عطا فرمائی تھی۔ لیکن نبی کے طفیل ابدی اور دائمی حیات ملتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری وہ ہمدردی اور خیر خواہانہ شفقت و تربیت فرماتے ہیں جو خود ہمارا نفس بھی اپنی نہیں کر سکتا۔ اسی لئے پیغمبر کو ہماری جان و مال میں تصرف کرنے کا وہ حق پہنچتا ہے جو دنیا میں کسی کو حاصل نہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "نبی نائب ہے اللہ کا، اپنی جان و مال میں اپنا تصرف نہیں چلتا جتنا نبی کا چلتا ہے۔ اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنا روا نہیں اور اگر نبی حکم دے دے تو فرض ہو جائے۔" ان ہی حقائق پر نظر کرتے ہوئے احادیث میں فرمایا کہ تم میں کوئی آدمی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک باپ، بیٹے اور سب آدمیوں بلکہ اس کی جان سے بھی بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔
ف٧ یعنی دینی مائیں ہیں تعظیم و احترام میں اور بعض احکام میں جو ان کے لئے شریعت سے ثابت ہوں۔ کل احکام میں نہیں۔
 ف ٨ حضرت کے ساتھ جنہوں نے وطن چھوڑا، بھائی بندوں سے ٹوٹے، آپ نے ان مہاجرین اور انصار مدینہ میں سے دو دو آدمیوں کو آپس میں بھائی بنا دیا تھا۔ بعدہ مہاجرین کے دوسرے قرابتدار مسلمان ہوگئے تب فرمایا کہ قدرتی رشتہ ناطہ اس بھائی چارہ سے مقدم ہے میراث وغیرہ رشتہ ناطے کے موافق تقسیم ہوگی۔ ہاں سلوک احسان ان رفیقوں سے بھی کئے جاؤ۔
ف۹ یعنی قرآن میں یہ حکم ہمیشہ کو جاری رہا۔ یا تورات میں بھی ہوگا یا "کتاب" سے "لوح محفوظ" مراد ہو۔


( BRALVI - TAFSEER NAEEM UDDIN MURADABADI)
(ف14) دنیا و دین کے تمام امور میں اور نبی کا حکم ان پر نافذ اور نبی کی طاعت واجب اور نبی کے حکم کے مقابل نفس کی خواہش واجب الترک یا یہ معنی ہیں کہ نبی مومنین پر ان کی جانوں سے زیادہ رافت و رحمت اور لطف و کرم فرماتے ہیں اور نافع تر ہیں ۔ بخاری و مسلم کی حدیث ہے سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر مومن کے لئے دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ اولٰی ہوں اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو ( اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَاَزْوَاجُهٗٓ اُمَّهٰتُهُمْ ۭ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓى اَوْلِيٰۗىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا    ۭ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا   Č۝) 33-الأحزاب:6) حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قراءت میں ''مِنْ اَنْفُسِھِمْ '' کے بعد '' وَ ھُوَ اَبُ لَّھُمْ ''بھی ہے ۔ مجاہد نے کہا کہ تمام انبیاء اپنی امت کے باپ ہوتے ہیں اور اسی رشتہ سے مسلمان آپس میں بھائی کہلاتے ہیں کہ وہ اپنے نبی کی دینی اولاد ہیں ۔
(ف15) تعظیم و حرمت میں اور نکاح کے ہمیشہ کے لئے حرام ہونے میں اور اس کے علاوہ دوسرے احکام میں مثل وراثت اور پردہ وغیرہ کے ان کا وہی حکم ہے جو اجنبی عورتوں کا اور ان کی بیٹیوں کو مومنین کی بہنیں اور ان کے بھائیوں اور بہنوں کو مومنین کے ماموں خالہ نہ کہا جائے گا ۔
(ف16) توارث میں ۔
(ف17) مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ اُو لِی الاَرحام ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہیں ، کوئی اجنبی دینی برادری کے ذریعہ سے وارث نہیں ہوتا ۔
(ف18) اس طرح کہ جس کے لئے چاہو کچھ وصیت کرو تو وصیت ثُلُث مال کے قدر میں توارث پر مقدم کی جائے گی ۔ خلاصہ یہ ہے کہ اوّل مال ذوِی الفروض کو دیا جائے گا پھر عصبات کو پھر نسبی ذوِی الفروض پر رد کیا جائے گا پھر ذوِی الارحام کو دیا جاوے گا پھر مولٰی الموالاۃ کو ۔ (تفسیرِ احمدی)
(ف19) یعنی لوح محفوظ میں ۔


No comments:

Post a Comment