Thursday, 30 June 2011

two

visit 4 rad e razakhaniyat data

huge data   ............... www.razakhaniyat.weebly.com 
picture data    ..........  www.deobandcamp.weebly.com







AYAT # TWO


وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ۭ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِىْ كُنْتَ عَلَيْهَآ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِـــعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰي عَقِبَيْهِ ۭ وَاِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَةً اِلَّا عَلَي الَّذِيْنَ ھَدَى اللّٰهُ ۭ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِـيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ    ١٤٣؁
(سورة البقرة)


اور اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور پیغمبر (آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم) تم پر گواہ بنیں اور جس قبلے پر تم (پہلے) تھے اس کو ہم نے اس لئے مقرر کیا تھا کہ معلوم کریں کہ کون (ہمارے) پیغمبر کا تابع رہتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور یہ بات (یعنی تحویل قبلہ لوگوں کو) گراں معلوم ہوئی مگر جن کو خدا نے ہدایت بخشی ہے (وہ اسے گراں نہیں سمجھتے) اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یونہی کھو دے خدا تو لوگوں پر بڑا مہربان (اور) صاحب رحمت ہے
(TARJUMA MOULANA FATHY MOUHAMMAD JAHLANDRI)

ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا (١) تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو جائیں جس قبلہ پر تم پہلے تھے اسے
ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے (٢) گو یہ کام مشکل ہے، مگر جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے ان پر کوئی مشکل نہیں اللہ تعالٰی تمہارے اعمال ضائع نہیں کرے گا (٣) اللہ تعالٰی لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔
(MOULANA JUNAA GAREE)




(TARJUMA MEHMOOD UL HASAN)
اور اسی طرح کیا ہم نے تم کو امت معتدل تاکہ تم ہو گواہ لوگوں پر اور ہو رسول تم پر گواہی دینے والا ف٣ اور نہیں مقرر کیا تھا ہم نے وہ قبلہ کہ جس پر تو پہلے تھا مگر اس واسطے کہ معلوم کریں کون تابع رہیگا رسول کا اور کون پھر جائے گا الٹے پاؤں ف٤ اور بیشک یہ بات بھاری ہوئی مگر ان پر جن کو راہ دکھائی اللہ نے ف ٥ اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع کرے تمہارا ایمان بیشک اللہ لوگوں پر بہت شفیق نہایت مہربان ہے ف ٦ 


اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل، کہ تم لوگوں پر گواہ ہو (ف۲۵۸) اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ (ف۲۵۹) اور اے محبوب! تم پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے۔ (ف۲٦۰) اور بیشک یہ بھاری تھی مگر ان پر، جنہیں اللہ نے ہدایت کی اور اللہ کی شان نہیں کہ تمہارا ایمان اکارت کرے (ف۲٦۱) بیشک اللہ آدمیوں پر بہت مہربان، رحم والا ہے۔
(AHMED RAZA KHAN)

TAFSIR

(TAFSEER IBN E KASEER)
پھر فرماتا ہے کہ اس پسندیدہ قبلہ کی طرف تمہیں متوجہ کرنا اس لیے ہے کہ تم خود بھی پسندیدہ امت ہو تم اور امتوں پر قیامت کے دن گواہ بنے رہو گے کیونکہ وہ سب تمہاری فضیلت مانتے ہیں وسط کے معنی یہاں پر بہتر اور عمدہ کے ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ قریش نسب کے اعتبار سے وسط عرب ہیں اور کہا گیا ہے حضور علیہ السلام اپنی قوم میں وسط تھے یعنی اشرف نسب والے اور صلوۃ وسطی یعنی افضل تر نماز جو عصر ہے جیسے صحیح احادیث سے ثابت ہے اور چونکہ تمام امتوں میں یہ امت بھی بہتر افضل اور اعلی تھی اس لئے انہیں شریعت بھی کامل راستہ بھی بالکل درست ملا اور دین بھی بہت واضح دیا گیا جیسے فرمایا (هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ) 22۔الحج:78) اس اللہ نے تمہیں چن لیا اور تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں کی تمہارے باپ ابراہیم کے دین پر تم ہو ۔ اسی نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے اس سے پہلے بھی اور اس میں بھی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر ۔ مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نوح علیہ السلام کو قیامت کے دن بلایا جائے گا اور ان سے دریافت کیا جائے گا کہ کیا تم نے میرا پیغام میرے بندوں کو پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے کہ ہاں اللہ پہنچا دیا تھا۔ ان کی امت کو بلایا جائے گا اور ان سے پرسش ہوگی کیا نوح علیہ السلام نے میری باتیں تمہیں پہنچائی تھیں وہ صاف انکار کریں گے اور کہیں گے ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا نوح علیہ السلام سے کہا جائے گا تمہاری امت انکار کرتی ہے تم گواہ پیش کرو یہ کہیں گے کہ ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت میری گواہ ہے یہی مطلب اس آیت (وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا) 2۔البقرۃ:143) کا ہے وسط کے معنی عدل کے ہیں اب تمہیں بلایا جائے گا اور تم گواہی دو گے اور میں تم پر گواہی دوں گا (بخاری ترمذی، نسائی ابن ماجہ) مسند احمد کی ایک اور روایت میں ہے قیامت کے دن نبی آئیں گے اور ان کے ساتھ ان کی امت کے صرف دو ہی شخص ہوں گے اور اس سے زیادہ بھی اس کی امت کو بلایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا اس نبی نے تمہیں تبلیغ کی تھی؟ وہ انکار کریں گے نبی سے کہا جائے گا تم نے تبلیغ کی وہ کہیں گے ہاں، کہا جائے گا تمہارا گواہ کون ہے؟ وہ کہیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت۔ پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت بلائی جائے گی ان سے یہی سوال ہو گا کہ کیا اس پیغمبر نے تبلیغ کی؟ یہ کہیں گے ہاں، ان سے کہا جائے گا کہ تمہیں کیسے علم ہوا؟ یہ جواب دیں گے کہ ہمارے پاس ہمارے نبی آئے اور آپ نے خبر دی کہ انبیاء علیہم السلام نے تیرا پیغام اپنی اپنی امتوں کو پہنچایا ۔ یہی مطلب ہے اللہ عزوجل کے اس فرمان (وکذلک) الخ کا مسند احمد کی ایک اور حدیث میں وسطاً بمعنی عدلاً آیا ہے ابن مردویہ اور ابن ابی حاتم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور میری امت قیامت کے دن ایک اونچے ٹیلے پر ہوں گے تمام مخلوق میں نمایاں ہو گے اور سب کو دیکھ رہے ہوں گے اس روز تمام دنیا تمنا کرے گی کہ کاش وہ بھی ہم میں سے ہوتے جس جس نبی کی قوم نے اسے جھٹلایا ہے ہم دربار رب العالمین میں شہادت دیں گے کہ ان تمام انبیاء نے حق رسالت ادا کیا تھا ۔ مستدرک حاکم کی ایک حدیث میں ہے کہ بنی مسلمہ کے قبیلے کے ایک شخص کے جنازے میں ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے لوگ کہنے لگے حضور یہ بڑا نیک آدمی تھا۔ بڑا متقی پارسا اور سچا مسلمان تھا اور بھی بہت سی تعریفیں کیں آپ نے فرمایا تم یہ کس طرح کہ رہے ہو؟ اس شخص نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوشیدگی کا علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن ظاہرداری تو اس کی ایسی ہی حالت تھی آپ نے فرمایا اس کے لیے جنت واجب ہو گئی پھر بنو حارثہ کے ایک شخص کے جنازے میں تھے لوگ کہنے لگے حضرت یہ برا آدمی تھا بڑا بد زبان اور کج خلق تھا آپ نے اس کی برائیاں سن کر پوچھا تم کیسے کہہ رہے ہو اس شخص نے بھی یہی کہا کہ آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی محمد بن کعب اس حدیث کو سن کر فرمانے لگے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں دیکھو قرآن بھی کہہ رہا ہے (وکذلک) الخ مسند احمد میں ہے۔ ابو الاسود فرماتے ہیں میں مدینہ میں آیا یہاں بیماری تھی لوگ بکثرت مر رہے تھے میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا جو ایک جنازہ نکلا اور لوگوں نے مرحوم کی نیکیاں بیان کرنی شروع کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی اتنے میں دوسرا جنازہ نکلا لوگوں نے اس کی برائیاں بیان کیں آپ نے فرمایا اس کے لیے واجب ہو گئی میں نے کہا امیر المومنین کیا واجب ہو گئی؟ آپ نے فرمایا میں نے وہی کہا جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس مسلمان کی بھلائی کی شہادت چار شخص دیں اسے جنت میں داخل کرتا ہے ہم نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اگر تین دیں؟ آپ نے فرمایا تین بھی ہم نے کہا اگر دو ہوں آپ نے فرمایا دو بھی۔ پھر ہم نے ایک کی بابت کا سوال نہ کیا ابن مردویہ کی ایک حدیث میں ہے قریب ہے کہ تم اپنے بھلوں اور بروں کو پہچان لیا کرو ۔ لوگوں نے کہا حضور کس طرح ؟ آپ نے فرمایا اچھی تعریف اور بری شہادت سے تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو پھر فرماتا ہے کہ اگلا قبلہ صرف امتحاناً تھا یعنی پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر کے پھر کعبۃ اللہ کی طرف پھیرنا صرف اس لئے تھا کہ معلوم ہو جائے کہ سچا تابعدار کون ہے؟ اور جہاں آپ توجہ کریں وہیں اپنی توجہ کرنے والا کون ہے؟ اور کون ہے جو ایک دم کروٹ لے لیتا ہے اور مرتد ہو جاتا ہے، یہ کام فی الحقیقت اہم کام تھا لیکن جن کے دلوں میں ایمان و یقین ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے پیروکار ہیں جو جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جو فرمائیں سچ ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے حکم کرتا ہے۔ اپنے بندوں کو جس طرح چاہے حکم دے جو چاہے مٹائے جو چاہے باقی رکھے اسکا ہر کام، ہر حکم حکمت سے پر ہے ان پر اس حکم کی بجا آوری کچھ بھی مشکل نہیں۔ ہاں بیمار دل والے تو جہاں نیا حکم آیا انہیں فوراً نیا درد اٹھا قرآن کریم میں اور جگہ ہے (وَاِذَا مَآ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ نَّظَرَ بَعْضُھُمْ اِلٰى بَعْضٍ ۭ هَلْ يَرٰىكُمْ مِّنْ اَحَدٍ ثُمَّ انْصَرَفُوْا  ۭ  صَرَفَ اللّٰهُ قُلُوْبَھُمْ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ) 9۔التوبہ:127) یعنی جب کبھی کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض پوچھتے ہیں اس سے کس کا ایمان بڑھا؟ حقیقت یہ ہے کہ ایمانداروں کے ایمان بڑھتے ہیں اور ان کی دلی خوشی بھی اور بیمار دل والے اپنی پلیدی میں اور بڑھ جاتے ہیں اور جگہ فرمان ہے (قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ۭ وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى) 41۔فصلت:44) یعنی ایمان والوں کے لیے یہ ہدایت اور شفا ہے اور بے ایمان لوگوں کے کانوں میں بوجھ اور آنکھوں پر اندھاپا ہے اور جگہ فرمان ہے (وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَاۗءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ ۙ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا) 17۔الاسرآء:82) یعنی ہمارا اتارا ہوا قرآن مومنوں کے لئے سراسر شفاء اور رحمت ہے اور ظالموں کا نقصان ہی بڑھتا رہتا ہے اس واقعہ میں بھی تمام بزرگ صحابہ ثابت قدم رہے اول سبقت کرنے والے مہاجر اور انصار دونوں قبیلوں کی طرف نماز پڑھنے والے ہیں ۔ چنانچہ اوپر حدیث بیان ہو چکی کہ کس طرح وہ نماز پڑھتے ہوئے یہ خبر سن کر گھوم گئے ۔ مسلم شریف میں روایت ہے کہ رکوع کی حالت میں تھے اور اسی میں کعبہ کی طرف پھر گئے جس سے ان کی کمال اطاعت اور اعلیٰ درجہ کی فرمان برداری ثابت ہوئی پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا ۔ یعنی تمہاری بیت المقدس کی طرف پڑھی ہوئی نمازیں رد نہیں ہوں گے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں بلکہ ان کی اعلیٰ ایمانداری ثابت ہوئی انہیں دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھنے کا ثواب عطا ہو گا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ان کے ساتھ تمہارے گھوم جانے کو ضائع نہ کرے گا پھر ارشاد ہوتا ہے کہ اللہ رؤف رحیم ہے؟ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگی قیدی عورت کو دیکھا جس سے اس کا بچہ چھوٹ گیا تھا وہ اپنے بچہ کو پاگلوں کی طرح تلاش کر رہی تھی اور جب وہ نہیں ملا تو قیدیوں میں سے جس کسی بچہ کو دیکھتی اسی کو گلے لگا لیتی یہاں تک کہ اس کا اپنا بچہ مل گیا خوشی خوشی لپک کر اسے گود میں اٹھا لیا سینے سے لگایا پیار کیا اور اس کے منہ میں دودھ دیا یہ دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا بتاؤ تو یہ اپنا بس چلتے ہوئے اس بچہ کو آگ میں ڈال دے گی؟ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز نہیں آپ نے فرمایا اللہ کی قسم جس قدر یہ ماں اپنے بچہ پہ مہربان ہے اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر رؤف و رحیم ہے۔

(TAFSEER MOULANA SLAH UDDIN YOUSUF)
۔١ وسط کے لغوی معنی تو درمیان کے ہیں لیکن یہ بہتر اور افضل کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے یہاں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی جس طرح تمہیں بہتر قبلہ عطا کیا گیا اسی طرح تمہیں سب سے افضل امت بھی بنایا گیا اور مقصد اس کا یہ ہے کہ تم لوگوں پر گواہی دو۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ہے (لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْ اشُھَدَآ ءَ عَلَی النَّاسِ) 22۔ الحج:28) رسول تم پر اور تم لوگوں پر گواہ ہو اس کی وضاحت بعض احادیث میں اس طرح آتی ہے کہ جب اللہ تعالٰی پیغمبروں سے قیامت والے دن پوچھے گا کہ تم نے میرا پیغام لوگوں تک پہنچایا تھا وہ ہاں میں جواب دیں گے ٫اللہ تعالٰی فرمائے گا تمہارا کوئی گواہ ہے؟ کہیں گے ہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت، چنانچہ یہ امت گواہی دے گی۔
 ١٤٣۔٢ یہ تحویل قبلہ کی ایک غرض بیان کی گئی ہے، کہ مومنین صادقین تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارات کے منتظر رہا کرتے تھے اس لئے ان کے لئے ادھر سے ادھر پھر جانا کوئی مشکل معاملہ نہ تھا بلکہ ایک مقام پر تو عین نماز کی حالت میں جب کہ وہ رکوع میں تھے یہ حکم پہنچا تو انہوں نے رکوع میں ہی اپنا رخ خانہ کعبہ کی طرف پھیر لیا یہ مسجد قبلٰتین (یعنی وہ مسجد جس میں ایک نماز دو قبلوں کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی) کہلاتی ہے اور ایسا ہی واقعہ مسجد قبا میں بھی ہوا (لِنَعْلَمْ) ( تاکہ ہم جان لیں) اللہ کو تو پہلے بھی علم تھا اس کا مطلب ہے تاکہ ہم اہل یقین کو اہل شک سے علیحدہ کر دیں تاکہ لوگوں کے سامنے بھی دونوں قسم کے لوگ واضح ہو جائیں (فتح القدیر)
 ١٤٣۔٣ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کے زمانے میں فوت ہو چکے تھے یا ہم جتنا عرصہ اس طرف رخ کرکے نماز پڑھتے رہے ہیں یہ ضائع ہوگیئں یا شاید ان کا ثواب نہیں ملے گا اللہ تعالٰی نے فرمایا یہ نمازیں ضائع نہیں ہونگی اور ان کا پورا پورا ثواب ملے گا۔ یہاں نماز کو ایمان سے تعبیر کرکے یہ واضح کر دیا کہ نماز کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایمان تب ہی معتبر ہے جب نماز اور دیگر احکام الٰہی کی پابندی ہوگی۔

(MOULANA SHABIR AHMED USMANI)
ف٣  یعنی جیسا تمہارا قبلہ کعبہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قبلہ اور تمام قبلوں سے افضل ہے ایسا ہی ہم نے تم کو سب امتوں سے افضل اور تمہارے پیغمبر کو سب پیغمبروں سے کامل اور برگزیدہ کیا تاکہ اس فضیلت اور کمال کی وجہ سے تم تمام امتوں کے مقابلہ میں گواہ مقبول الشہادۃ قرار دیئے جاؤ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری عدالت و صداقت کی گواہی دیں جیسا کہ احادیث میں وارد ہے کہ جب پہلی امتوں کے کافر اپنے پیغمبروں کے دعوے کی تکذیب کرینگے اور کہیں گے کہ ہم کو تو کسی نے بھی دنیا میں ہدایت نہیں کی اس وقت آپ کی امت انبیاء کے دعوے کی صداقت پر گواہی دے گی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنے اُمتّیوں کے حالات سے پُورے واقف ہیں ان کی صداقت و عدالت پر گواہ ہونگے اسوقت وہ امتیں کہیں گی کہ انہوں نے تو نہ ہمارا زمانہ پایا نہ ہم کو دیکھا پھر گواہی کیسے مقبول ہوسکتی ہے اس وقت آپ کی امت جواب دیگی کہ ہم کو خدا کی کتاب اور اس کے رسول کے بتلانے سے اس امر کا علم یقینی ہوا اس کی وجہ سے ہم گواہی دیتے ہیں۔
فائدہ: وسط یعنی معتدل کا یہ مطلب ہے کہ یہ امت ٹھیک سیدھی راہ پر ہے جس میں کچھ بھی کجی کا شائبہ نہیں اور افراط و تفریط سے بالکل بَری ہے۔
 ف٤    یعنی اصلی قبلہ تمہارا تو کعبہ ہی تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے چلا آتا ہے اور چند روز کے لئے جو بیت المقدس مقرر کر دیا تھا وہ تو صرف امتحان کے لئے تھا کہ کون تابعداری پر قائم رہتا ہے اور کون دین سے پھر جاتا ہے سو اس میں جو لوگ ایمان پر قائم رہے ان کا بڑا درجہ ہے۔
 فائدہ: اس آیت میں لنعلم جو صیغہ استقبال ہے اور دیگر آیات میں جو حتی نعلم اور فلیعلمن اور لمایعلم اللّٰہ اور لنبلونکم اور الا لنعلم وغیرہ کلمات موجود ہیں ان سب سے بظاہر یوں سمجھ میں آتا ہے کہ حق تعالٰی کو نعوذ باللہ ان اشیاء کا علم بعد کو ہوا ان چیزوں کے وجود سے پہلے علم نہ تھا، حالانکہ اس کا علم ہرچیز کے ساتھ قدیم ہے کَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَی ءٍ عَلِیمَا علماء نے کئی طرح سے اس کا جواب دیا ہے بعض نے علم سے متمیز اور جُدا جُدا کر دینا مراد لیا ہے بعض نے امتحان کے معنی لئے کسی نے علم کو بمعنی روایت لیا کسی نے مستقبل کو بمعنی ماضی فرمایا بعض نے حدوث علم کو نبی اور مومنین کی طرف رجوع کیا یا مخاطبین کی طرف لوٹایا بعض اکابر محققین نے علم حالی جو بعد وجود معلوم متحقق ہوتا ہے جس پر جزاو سزا مدح وذم مترتب ہوتی ہے مراد لیا اور اسی کو پسند فرمایا بعض راسخین مدققین نے اس کے متعلق دو باتیں نہایت دقیق و انیق بیان فرمائیں۔ اول کا خلاصہ یہ ہے کہ حسب ارشاد ان اللّٰہ قد احاط بکل شیءِ علماء تمام چیزیں اول سے آخر تک حقیر و عظیم قلیل و کثیر خدا کے سامنے ہیں اور سب کا علم اس کو ایک ساتھ ہے اس کے علم میں تقدم و تاخر ہرگز نہیں مگر آپس میں ایک دوسرے کی نسبت بیشک مقدم اور موخر گنی جاتی ہیں سو علم خداوندی کے حساب سے سب کی سب بمنزلہ شئی واحد موجود ہیں اس لئے وہاں ماضی حال استقبال نکالنا بالکل غلط ہوگا البتہ تقدم و تاخر باہمی کی وجہ سے یہ تینوں زمانے بالبداہت جُدا جُدا نکلیں گے سو جناب باری کبھی تو حسب موقع و حکمت اپنے معلوم ہونے کے لحاظ سے کلام فرماتا ہے اور کبھی ان وقائع کے تقدم و تاخر کا لحاظ ہوتا ہے پہلی صورت میں تو ہمیشہ بلحاظ ایک فرق دقیق کے ہمیشہ ماضی کا صیغہ یا حال کا صیغہ مستعمل ہوتا ہے استقبال کا صیغہ مستعمل نہیں ہوسکتا اور دوسری صورت میں ماضی کے موقع میں ماضی اور حال کے موقع میں حال اور استقبال کی جگہ استقبال لایا جاتا ہے سو جہاں کہیں واقعہ آئندہ کو ماضی کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے جیسا ونادیٰ اصحٰب الجنّۃ وغیرہ تو وہاں اس کا لحاظ ہے کہ حق تعالٰی کو سب مستحضر اور پیش نظر ہے اور جہاں امور گزشتہ کو صیغہ استقبال سے بیان فرمایا ہے جیسا اسی آیت میں الا لنعلم ہے یا اور اس کے سوا تو وہاں یہ مدنظر ہے کہ بہ نسبت اپنے ماقبل کے مستقبل ہے علم الہٰی کے لحاظ سے استقبال نہیں جو اس کے علم میں حدوث کا وہم ہو دوسری تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم کو علم اشیاء دو طریق سے حاصل ہوتا ہے ایک تو بلاواسطہ دوسرا بواسطہ مثلاَ آگ کو کبھی تو آنکھ سے مشاہدہ کرتے ہیں اور کبھی آگ تو ہم سے کسی آڑ میں ہوتی ہے مگر دھوئیں کو دیکھ کر آگ کا یقین ہو جاتا ہے اور بسا اوقات یہ دونوں علم ایک جگہ ایک ساتھ موجود ہوتے ہیں مثلاً آگ کو پاس سے دیکھیئے تو دُھواں بھی اس کے ساتھ نظر آئیگا۔ سو اس صورت میں آگ کا علم دونوں طرح حاصل ہوگا ایک تو بلاواسطہ کیونکہ آنکھ سے آگ کو دیکھ رہے ہیں دوسرا بواسطہ یعنی آگ کا علم دھوئیں کے واسطہ سے اور یہ دونوں علم ہر چند ایک ساتھ ہیں آگے پیچھے پیدا نہیں ہوئے مگر علم بواسطہ علم بلاواسطہ میں ایسا محو ہوتا ہے کہ اس کا دھیان بھی نہیں گزرتا۔ علیٰ ہذا القیاس کبھی دو چیزوں کا علم بلاواسطہ بھی ایک ساتھ حاصل ہوتا ہے مثلاَ آگ اور دھوئیں کو ایک ساتھ دیکھئے اسی طرح کبھی ایک شئی کا علم بلاواسطہ اور دوسری شئی کا علم پہلی شئی کے واسطہ سے ایک ساتھ حاصل ہوتے ہیں مثلاَ دھوئیں کا علم بلاواسطہ اور آگ کا علم دھوئیں کے واسطہ سے، یا آگ کا علم بلاواسطہ اور دھوئیں کا علم آگ کے واسطہ سے دونوں ساتھ ہی پیدا ہوتے ہیں مگر جیسا قلم کو ہاتھ میں لے کر لکھیں تو ہر چند ہاتھ اور قلم ساتھ ہی ہلتے ہیں لیکن پھر یوں کہتے ہیں کہ ہاتھ پہلے ہلا تو قلم ہلا اسی طرح پر عقل سلیم باوجود ایک ساتھ ہونے کے ایک شے کے علم بلاواسطہ کو دوسری شے کے علم بالواسطہ سے جو بواسطہ پہلی شے کے حاصل ہوا ہے ایک طرح پر ضرور مقدم سمجھتی ہے جب یہ باتیں معلوم ہو چکیں تو اب سنیئے کہ خداوندِ علیم کو بھی تمام اشیاء کا علم دونوں طرح پر ہے بلاواسطہ اور بواسطہ دیگر یعنی لوازم کا ملزومات سے اور ملزومات کا لوازم سے اور دونوں علم ازل سے برابر ساتھی ہیں گو علم بواسطہ کسی چیز کا اس کے علم بلاواسطہ میں محو اور مضمحل ہو اور ایسا ہی ایک چیز کا علم بلاواسطہ اور دوسری چیز کا علم بالواسطہ برابر ساتھ ہے اور دونوں قدیم ہیں گو علم بلاواسطہ کو بطریق مذکور مقدم اور علم بالواسطہ کو موخر کہیں سو جہاں کہیں علمِ خداوندی کے ذکر میں صیغہ استقبال کا یا معنی استقبال کے پائے جاتے ہیں وہ علم بالواسطہ کے لحاظ سے ہے زمانہ کے اعتبار سے کچھ تفاوت نہیں اور جہاں کہیں ماضی یا حال مستعمل ہے وہاں علم بلاواسطہ مراد ہے اور علم بالواسطہ کے اعتبار سے کلام فرمانے میں یہ حکمت ہے کہ کلام الہٰی کے مخاطب آدمی ہیں اور ان کو اکثر اشیاء کا علم بالواسطہ ہوتا ہے اور جہاں کہیں جناب باری نے اپنے علم میں صیغہ استقبال استعمال فرمایا ہے وہ وہی امور ہیں جو بنی آدم کو بلا واسطہ معلوم نہیں ہو سکتے۔ اگر ایسے موقع میں بنی آدم سے باعتبار علم بلاواسطہ کلام کیا جاتا تو ان پر پُورا الزام نہ ہوتا اور جہاں یہ مصلحت نہیں وہاں باعتبار علم بلاواسطہ صیغہ ماضی یا حال کا استعمال کیا جاتا ہے مگر بنی آدم کو چونکہ ان اشیاء کا علم بِلا واسطہ ہو ہی نہیں سکتا اور ان واسطوں کا علم قبل ان کے وجود کے بنی آدم کو ممکن نہیں اور اس وجہ سے ان کے تمام علوم برابر حاصل نہیں ہوتے تو وہ خدا کو اپنے اُوپر قیاس کر کے صیغہ استقبال سے حدوث سمجھ جاتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ علم الہٰی میں حدوث ثابت ہوگیا مگر فہمیدہ اشخاص جو نکتہ مذکورہ سے واقف ہیں سب کو مطابق یکدگر سمجھتے ہیں والحمدللہ۔
 ف ٥     اوّل سے آپ کے لئے خانہ کعبہ قبلہ مقرر ہوا تھا بیچ میں چند عرصہ کے لئے امتحاناَ بیت المقدس کو قبلہ مقرر فرمایا اور سب جانتے ہیں کہ امتحان اسی چیز میں ہوتا ہے جو نفس پر دشوار ہو سو حق تعالٰی فرماتا ہے کہ بیشک بجائے کعبہ کے بیت المقدس کو قبلہ بنانا لوگوں کو بھاری معلوم ہوا عوام مسلمین کو تو اس وجہ سے کہ وہ عموماَ عرب اور قریش تھے اور کعبہ کی افضلیت کے معتقد تھے ان کو اپنے خیال اور رسم و عادت کے خلاف کرنا پڑا، اور خواص کے گھبرانے کی یہ وجہ تھی کہ ملّت ابراہیمی کے خلاف تھا جس کی موافقت کے مامور تھے اور اخصُّ الخواص جن کو ذوقِ سلیم اور تمیز مراتب کی لیاقت عطا ہوئی تھی وہ کعبہ کے بعد بیت المقدس کی طرف متوجہ ہونے کو ترقی معکوس خیال کرتے تھے مگر جن حضرات کو حکمت واسرار تک رسائی تھی اور حقیقت کعبہ اور حقیقیت بیت المقدس کو بنورِ فراست جُدا جُدا معہ فرق مراتب سمجھتے تھے وہ جانتے تھے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء کے کمالات کے جامع اور آپ کی رسالت جملہ عالم اور تمام امتوں کے لئے شامل ہے اس لئے ضرور ہے کہ استقبال بیت المقدس کی بھی نوبت آئے یہی وجہ ہے کہ شب معراج میں تمام انبیاء سابقین سے ملاقات بھی ہوئی اور اس کے بعد استقبال بیت المقدس کا بھی حکم ہوا واللہ اعلم۔
 ف ٦     یہود نے کہا کہ کعبہ قبلہ اصلی ہے تو اتنی مُدّت کی نماز جو بیت المقدس کی طرف پڑھی تھی ضائع ہوئی بعض مسلمانوں کو شبہ ہوا کہ بیت المقدس جب قبلہ اصلی نہ تھا تو جو مسلمان اسی حالت پر مرگئے ان کے ثواب میں نقصان رہا باقی زندہ رہنے والے تو آئندہ کو مکافات اور اس کا تدارک کرلیں گے اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جب تم نے بیت المقدس کی طرف نماز محض مقتضائے ایمانی اور اطاعت حکم خداوندی کے سبب پڑھی تو تمہارے اجرو ثواب میں کسی طرح کا نقصان نہ ڈالا جائے گا۔

( BRALVI - TAFSEER NAEEM UDDIN MURADABADI)
تعریف کی حضور نے فرمایا واجب ہوئی پھر دوسرا جنازہ گزرا صحابہ نے اس کی برائی کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: واجب ہوئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ حضور کیا چیزواجب ہوئی ؟فرمایا: پہلے جنازہ کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت واجب ہوئی دوسرے کی تم نے برائی بیان کی اس کے لئے دوزخ واجب ہوئی تم زمین میں اللہ کے شہداء (گواہ) ہو پھر حضور نے یہ آیت تلاوت فرمائی مسئلہ : یہ تمام شہادتیں صلحاء امت اور اہل صدق کے ساتھ خاص ہیں اور ان کے معتبر ہونے کے لئے زبان کی نگہداشت شرط ہے جو لوگ زبان کی احتیاط نہیں کرتے اور بےجا خلاف شرع کلمات ان کی زبان سے نکلتے ہیں اور ناحق لعنت کرتے ہیں صحاح کی حدیث میں ہے کہ روز قیامت نہ وہ شافع ہوں گے نہ شاہد اس امت کی ایک شہادت یہ بھی ہے کہ آخرت میں جب تمام اولین و آخرین جمع ہوں گے اور کفار سے فرمایا جائے گا کیا تمہارے پاس میری طرف سے ڈرانے اور احکام پہنچانے والے نہیں آئے تو وہ انکار کریں گے اور کہیں گے کوئی نہیں آیا۔ حضرات انبیاء سے دریافت فرمایا جائے گا وہ عرض کریں گے کہ یہ جھوٹے ہیں ہم نے انہیں تبلیغ کی اس پر ان سے '' اِقَامَۃً لِلْحُجَّۃِ'' دلیل طلب کی جائے گی وہ عرض کریں گے کہ امت محمدیہ ہماری شاہد ہے یہ امت پیغمبروں کی شہادت دے گی کہ ان حضرات نے تبلیغ فرمائی اس پر گزشتہ امت کے کفار کہیں گے اِنہیں کیا معلوم یہ ہم سے بعد ہوئے تھے دریافت فرمایا جائے گا تم کیسے جانتے ہو یہ عرض کریں گے یارب تو نے ہماری طرف اپنے رسول محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا قرآن پاک نازل فرمایا ان کے ذریعے سے ہم قطعی و یقینی طور پر جانتے ہیں کہ حضرات انبیاء نے فرضِ تبلیغ علیٰ وجہ الکمال ادا کیا پھر سید انبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے آپ کی امت کی نسبت دریافت فرمایا جائے گا حضور انکی تصدیق فرمائیں گے۔ مسئلہ: اس سے معلوم ہوا کہ اشیاء معروفہ میں شہادت تسامع کے ساتھ بھی معتبر ہے یعنی جن چیزوں کا علمِ یقینی سننے سے حاصل ہو اس پر بھی شہادت دی جاسکتی ہے۔
(ف259) امت کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطلاع کے ذریعہ سے احوال امم و تبلیغ انبیاء کا علم قطعی و یقینی حاصل ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بکرم الہٰی نور نبوت سے ہر شخص کے حال اور اس کی حقیقت ایمان اور اعمال نیک و بد اور اخلاص و نفاق سب پر مطلع ہیں
مسئلہ : اسی لئے حضور کی شہادت دنیا میں بحکم شرع امت کے حق میں مقبول ہے یہی وجہ ہے کہ حضور نے اپنے زمانہ کے حاضرین کے متعلق جو کچھ فرمایا مثلاً: صحابہ و ازواج و اہل بیت کے فضائل و مناقب یا غائبوں اور بعد والوں کے لئے مثل حضرت اویس و امام مہدی وغیرہ کے اس پر اعتقاد واجب ہے
مسئلہ : ہر نبی کو ان کی امت کے اعمال پر مطلع کیا جاتا ہے تاکہ روز قیامت شہادت دے سکیں چونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت عام ہوگی اس لئے حضور تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہیں فائدہ یہاں شہید بمعنی مطلع بھی ہوسکتا ہے کیونکہ شہادت کا لفظ علم وا طلاع کے معنی میں بھی آیا ہے ۔ (وَاللّٰهُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ     Č۝ۧ) 58-المجادلة:6) (ف260) سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمپہلے کعبہ کی طرف نماز پڑھتے تھے بعد ہجرت بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہوا سترہ مہینے کے قریب اس طرف نماز پڑھی پھر کعبہ شریف کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا۔ اس تحویل کی ایک یہ حکمت ارشاد ہوئی کہ اس سے مومن و کافر میں فرق و امتیاز ہوجائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
(ف261) شان نزول بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کے زمانہ میں جن صحابہ نے وفات پائی ان کے رشتہ داروں نے تحویل قبلہ کے بعد ان کی نمازوں کا حکم دریافت کیا اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اطمینان دلایا گیا کہ ان کی نمازیں ضائع نہیں ان پر ثواب ملے گا۔ فائدہ نماز کو ایمان سے تعبیر فرمایا گیا کیونکہ اس کی ادا اور بجماعت پڑھنا دلیل ایمان ہے۔

No comments:

Post a Comment