visit 4 rad e razakhaniyat data
huge data ............... www.razakhaniyat.weebly.com
picture data .......... www.deobandcamp.weebly.com
AYAT # FOURTEEN
(سورة البقرة)
وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰۗىِٕكَةِ اِنِّىْ جَاعِلٌ فِى الْاَرْضِ خَلِيْفَةً ۭ قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاۗءَ ۚ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۭ قَالَ اِنِّىْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ 30
اور (وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں، انہوں نے کہا کیا تو اس میں ایسے شخص کو بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے، اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے رہتے ہیں (خدا نے) فرمایا میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے
(TARJUMA MOULANA FATHY MOUHAMMAD JAHLANDRI)
اور جب تیرے رب نے فرشتوں (١) سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں (٢) نے کہا کہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ (٣)
(MOULANA JUNAA GAREE)
اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک نائب ف١٣ کہا فرشتوں نے کیا قائم کرتا ہے تو زمین میں اس کو جو فساد کرے اس میں اور خون بہائے اور ہم پڑھتے رہتے ہیں تیری خوبیاں اور یاد کرتے ہیں تیری پاک ذات کو ف١ فرمایا بیشک مجھ کو معلوم ہے جو تم نہیں جانتے ف٢
(TARJUMA MEHMOOD UL HASAN)
اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں (ف۵۳) بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا (ف۵٤) اور ہم تجھے سراہتے ہوئے، تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں، فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے ۔ (ف۵۵)
(AHMED RAZA KHAN)
TAFSIR
(ERTAFSEER IBAN E KAS)
خلافت آدم کا مفہوم
اللہ تعالٰی کے اس احسان کو دیکھو کہ اس نے آدم کو پیدا کرنے سے پہلے فرشتوں میں ان کا ذکر کیا جس کا بیان اس آیت میں ہے۔ فرماتا ہے کہ اے نبی تم یاد کرو اور اپنی امت کو یہ خبر پہنچاؤ۔ ابو عبیدہ تو کہتے ہیں کہ لفظ "اذ" یہاں زائد ہے لیکن ابن جریر وغیرہ مفسرین اس کی تردید کرتے ہیں خلیفہ سے مراد یہ ہے کہ ان کے یکے بعد دیگرے بعض کے بعض جانشین ہوں گے اور ایک زمانہ کے بعد دوسری زمانہ میں یونہی صدیوں تک یہ سلسلہ رہے گا۔ جیسے اور جگہ ارشاد ہے۔ آیت (هُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰۗىِٕفَ فِي الْاَرْضِ) 35۔فاطر:39) دوسری جگہ فرمایا آیت (وَيَجْعَلُكُمْ خُلَـفَاۗءَ الْاَرْضِ) 27۔النمل:62) یعنی تمہیں اس نے زمین کا خلیفہ بنا دیا اور ارشاد ہے کہ ان کے بعد ان کے خلیفہ یعنی جانشین برے لوگ ہوئے۔ ایک شاذ قرأت میں خلیفہ بھی ہے۔ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ خلیفہ سے مراد صرف حضرت آدم ہیں لیکن اس بارے میں تفسیر رازی کے مفسر نے اختلاف کو ذکر کیا ہے۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مطلب نہیں۔ اس کی ایک دلیل تو فرشتوں کا یہ قول ہے کہ وہ زمین میں فساد کریں گے اور خون بہائیں گے تو ظاہر ہے کہ انہوں نے اولاد آدم کی نسبت یہ فرمایا تھا نہ کہ خاص حضرت آدم کی نسبت۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا علم فرشتوں کو کیونکر ہوا؟ یا تو کسی خاص ذریعہ سے انہیں یہ معلوم ہوا یا بشری طبیعت کے اقتضا کو دیکھ کر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو گا کیونکہ یہ فرما دیا گیا تھا کہ اس کی پیدائش مٹی سے ہو گی یا لفظ خلیفہ کے مفہوم سے انہوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ وہ فیصلے کرنے والا مظالم کی روک تھام کرنے والا اور حرام کاموں اور گناہوں کی باتوں سے روکنے والا ہو گا یا انہوں نے پہلی مخلوق کو دیکھا تھا اسی بنا پر اسے بھی قیاس کیا ہو گا۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ فرشتوں کی یہ عرض بطور اعتراض نہ تھی نہ بنی آدم سے حسد کے طور پر تھی۔ جن لوگوں کا یہ خیال ہے وہ قطعی غلطی کر رہے ہیں۔ فرشتوں کی شان میں قرآن فرماتا ہے آیت (لَا يَسْبِقُوْنَهٗ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِاَمْرِهٖ يَعْمَلُوْنَ) 21۔الانبیآء:27) یعنی جس بات کے دریافت کرنے کی انہیں اجازت نہ ہو اس میں وہ لب نہیں ہلاتے (اور یہ بھی ظاہر ہے کہ فرشتوں کی طبیعت حسد سے پاک ہے) بلکہ صحیح مطلب یہ ہے کہ یہ سوال صرف اس حکمت معلوم کرنے کے لئے اور اس راز کے ظاہر کرانے کے لئے تھا جو ان کی سمجھ سے بالاتر تھا۔ یہ تو جانتے تھے کہ اس مخلوق میں فسادی لوگ بھی ہوں گے تو اب با ادب سوال کیا کہ پروردگار ایسی مخلوق کے پیدا کرنے میں کونسی حکمت ہے؟ اگر عبادت مقصود ہے تو عبادت تو ہم کرتے ہی ہیں، تسبیح و تقدیس و تحمید ہر وقت ہماری زبانوں پر ہے اور پھر فساد وغیرہ سے پاک ہیں تو پھر اور مخلوق جن میں فسادی اور خونی بھی ہوں گے کس مصلحت پر پیدا کی جا رہی ہے؟ تو اللہ تعالٰی نے ان کے سوال کا جواب دیا کہ باوجود اس کے فساد کے اسے جن مصلحتوں اور حکمتوں کی بنا پر میں پیدا کر رہا ہوں انہیں میں ہی جانتا ہوں تمہارا علم ان تک حکمتوں نہیں پہنچ سکتا میں جانتا ہوں کہ ان میں انبیاء اور رسول ہوں گے ان میں صدیق اور شہید ہوں گے۔ ان میں عابد، زاہد، اولیاء ، ابرار، نیکوکار، مقرب بارگاہ، علماء، صلحاء، متقی، پرہیزگار، خوف الٰہی، حب باری تعالٰی رکھنے والے بھی ہوں گے۔ میرے احکام کی بسر و چشم تعمیل کرنے والے، میرے نبیوں کے ارشاد پر لبیک پکارنے والے بھی ہوں گے۔ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ دن کے فرشتے صبح صادق کے وقت آتے ہیں اور عصر کو چلے جاتے ہیں۔ تب رات کے فرشتے آتے ہیں اور صبح کو جاتے ہیں۔ آنے والے جب آتے ہیں تب بھی اور جب جاتے ہیں تب بھی صبح کی اور عصر کی نماز میں لوگوں کو پاتے ہیں اور دربار الٰہی میں پروردگار کے سوال کے جواب میں دونوں جماعتیں یہی کہتی ہیں کہ گئے تو نماز میں پایا اور آئے تو نماز میں چھوڑ کر آئے یہی وہ مصلحت اللہ ہے جسے فرشتوں کو بتایا گیا کہ میں جانتا ہوں اور تم نہیں جانتے۔ ان فرشتوں کو اسی چیز کو دیکھنے کے لئے بھیجا جاتا ہے اور دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے دن سے پہلے الہ العالمین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ غرض تفصیلی حکمت جو پیدائش انسان میں تھی اس کی نسبت فرمایا کہ یہ میرے مخصوص علم میں ہے۔ جو تمہیں معلوم نہیں بعض کہتے ہیں یہ جواب فرشتوں کے اس قول کا ہے کہ ہم تیری تسبیح وغیرہ کرتے رہتے ہیں تو انہیں فرمایا گیا کہ میں ہی جانتا ہوں تم جیسا سب کو یکساں سمجھتے ہو ایسا نہیں بلکہ تم میں ایک ابلیس بھی ہے۔ ایک تیسرا قول یہ ہے کہ فرشتوں کا یہ سب کہنا دراصل یہ مطلب رکھتا تھا کہ ہمیں زمین میں بسایا جائے تو جواباً کہا گیا کہ تمہاری آسمانوں میں رہنے کی مصلحت میں ہی جانتا ہوں اور مجھے علم ہے کہ تمہارے لائق جگہ یہی ہے واللہ اعلم۔ حسن قتادہ وغیرہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے فرشتوں کو خبر دی۔ سدی کہتے ہیں مشورہ لیا۔ لیکن اس کے معنی بھی خبر دینے کے ہو سکتے ہیں۔ اگر نہ ہوں تو پھر یہ بات بےوزن ہو جاتی ہے۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مکہ سے زمین پھیلائی اور بچھائی گئی تو بیت اللہ شریف کا طواف سب سے پہلے فرشتوں نے کیا اور زمین میں خلیفہ بنانے سے مراد مکہ میں خلیفہ بنانا ہے۔ یہ حدیث مرسل ہے پھر اس میں ضعف ہے اور مدرج ہے یعنی زمین سے مراد مکہ لینا راوی کا اپنا خیال ہے واللہ اعلم۔ بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین سے ساری زمین مراد ہے۔ فرشتوں نے جب یہ سنا تو پوچھا تھا کہ وہ خلیفہ کیا ہو گا؟ اور جواب میں کہا گیا تھا کہ اس کی اولاد میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو زمین میں فساد کریں، حسد و بغض کریں، قتل و خون کریں ان میں وہ عدل و انصاف کرے گا اور میرے احکام جاری کرے گا تو اس سے مراد حضرت آدم ہیں۔ جو ان کے قائم مقام اللہ تعالٰی کی اطاعت اور مخلوق میں عدل و انصاف کرنے کی بنا پر فساد پھیلانے اور خون بہانے والے خلیفہ نہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہاں مراد خلافت سے ایک زمانہ جو دوسرے زمانہ کے بعد آتا ہے۔ خلیفہ فعیلہ کے وزن پر ہے۔ جب ایک کے بعد دوسرا اس کے قائم مقام ہو تو عرب کہتے ہیں۔ خلف فلان فلانا فلاں شخص کا خلیفہ ہوا جیسے قرآن میں ہے کہ ہم ان کے بعد تمہیں زمین کا خلیفہ بنا کر دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو اور اسی لئے سلطان اعظم کو خلیفہ کہتے ہیں اس لئے کہ وہ اگلے بادشاہ کا جانشین ہوتا ہے محمد بن اسحق کہتے ہیں مراد یہ ہے کہ زمین کا ساکن اس کی آبادی کرنے والا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں پہلے زمین میں جنات بستے تھے۔ انہوں نے اس میں فساد کیا اور خون بہایا اور قتل و غارت کیا ابلیس کو بھیجا گیا اس نے اور اس کے ساتھیوں نے انہیں مار مار کر جزیروں اور پہاڑوں میں بھگا دیا حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے زمین میں بسایا تو گویا یہ ان پہلے والوں کے خلیفہ اور جانشین ہوئے۔ پس فرشتوں کے قول سے مراد اولاد آدم ہیں جس وقت ان سے کہا گیا کہ میں زمین کو اور اس میں بسنے والی مخلوق کو پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت زمین تھی لیکن اس میں آبادی نہ تھی۔ بعض صحابہ سے یہ بھی مروی ہے کہ چونکہ اللہ تعالٰی نے انہیں معلوم کروا دیا تھا کہ اولاد آدم ایسے ایسے کام کرے گی تو انہوں نے یہ پوچھا اور یہ بھی مروی ہے کہ جنات کے فساد پر انہوں نے بنی آدم کے فساد کو قیاس کر کے یہ سوال کیا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ آدم علیہ السلام سے دو ہزار سال پہلے سے جنات زمین میں آباد تھے۔ ابو العالیہ فرماتے ہیں فرشتے بدھ کے دن پیدا ہوئے اور جنات کو جمعرات کے دن پیدا کیا اور جمعہ کے دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے حضرت حسن اور حضرت قتادہ کا قول ہے کہ اللہ تعالٰی نے انہیں خبر دی تھی کہ ابن آدم ایسا ایسا کریں گے اس بنا پر انہوں نے سوال کیا ابو جعفر محمد بن علی فرماتے ہیں سجل نامی ایک فرشتہ ہے جس کے ساتھی ہاروت ماروت تھے۔ اسے ہر دن تین مرتبہ لوح محفوظ پر نظر ڈالنے کی اجازت تھی۔ ایک مرتبہ اس نے آدم علیہ السلام کی پپدائش اور دیگر امور کا جب مطالعہ کیا تو چپکے سے اپنے ان دونوں ساتھیوں کو بھی اطلاع کر دی۔ اب جو اللہ تعالٰی نے اپنا ارادہ ظاہر فرمایا تو ان دونوں نے یہ سوال کیا لیکن یہ روایت غریب ہے اور صبح مان لینے پر بھی ممکن ہے کہ ابو جعفر نے اسے اہل کتاب یہود و نصاریٰ سے اخذ کیا ہو۔ بہر صورت یہ ایک واہی تواہی روایت ہے اور قابل تردید ہے۔ واللہ اعلم۔ پھر اس روایت میں ہے کہ دو فرشتوں نے یہ سوال کیا۔ یہ قرآن کی روانی عبارت کے بھی خلاف ہے۔ یہ بھی روایت مروی ہے کہ یہ کہنے والے فرشتے دس ہزار تھے اور وہ سب کے سب جلا دئیے گئے۔ یہ بھی بنی اسرائیلی روایت ہے اور بہت ہی غریب ہے امام ابن جریر فرماتے ہیں اس سوال کی انہیں اجازت دی گئی تھی اور یہ بھی معلوم کرا دیا گیا تھا کہ یہ مخلوق نافرمان بھی ہو گی تو انہوں نے نہایت تعجب کے ساتھ اللہ کی مصلحت معلوم کرنے کے لئے یہ سوال کیا نہ کہ کوئی مشورہ دیا یا انکار کیا یا اعتراض کیا ہو۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب آدم علیہ السلام کی پیدائش شروع ہوئی تو فرشتوں نے کہا ناممکن ہے کہ کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق ہم سے زیادہ بزرگ اور عالم ہو تو اس پر یہ امتحان اللہ کی طرف سے آیا اور کوئی مخلوق امتحان سے نہیں چھوٹی۔ زمین اور آسمان پر بھی امتحان آیا تھا اور انہوں نے سرخم کر کے اطاعت الٰہیہ کے لئے آمادگی ظاہر کی فرشتوں کی تسبیح و تقدیس سے مراد اللہ تعالٰی کی پاکی بیان کرنا نماز پڑھنا بے ادبی سے بچنا، بڑائی اور عظمت کرنا ہے۔ فرماں برداری کرنا سبوح قدوس وغیرہ پڑھنا ہے۔ قدس کے معنی پاک کے ہیں۔ پاک زمین کو مقدس کہتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ کونسا کلام افضل ہے جواب دیتے ہیں وہ جسے اللہ تعالٰی نے اپنے فرشتوں کے لئے پسند فرمایا سبحان اللہ وبحمدہ (صحیح مسلم) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج والی رات آسمانوں پر فرشتوں کی یہ تسبیح سنی سبحان العلی الاعلی سبحانہ
خلیفہ کے فرائض اور خلافت کی نوعیت ٭٭
امام قرطبی وغیرہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ہے تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرے، ان کے جھگڑے چکائے، مظلوب کا بدلہ ظالم سے لے، حدیں قائم کرے، برائیوں کے مرتکب لوگوں کو ڈانٹے ڈپٹے وغیرہ، وہ بڑے بڑے کام جو بغیر امام کے انجام نہیں پا سکتے۔ چونکہ یہ کام واجب ہیں اور یہ بغیر امام کے پورے نہیں ہو سکتے اور جس چپز کے بغیر واجب پورا نہ ہو وہ بھی واجب ہو جاتی ہے لہذا خلیفہ کا مقرر کرنا واجب ثابت ہوا۔ امامت یا تو قرآن و حدیث کے ظاہری لفظوں سے ملے گی جیسے کہ اہل سنت کی ایک جماعت کا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت خیال ہے کہ ان کا نام حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لئے لیا تھا یا قرآن و حدیث سے اس کی جانب اشارہ ہو۔ جیسے اہل سنت ہی کی دوسری جماعت کا خلیفہ اول کی بابت یہ خیال ہے کہ اشارۃً ان کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافت کے لئے کیا۔ یا ایک خلیفہ اپنے بعد دوسرے کو نامزد کر جائے جیسے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔ یا وہ صالح لوگوں کی ایک کمیٹی بنا کر انتخاب کا کام ان کے سپرد کر جائے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کیا تھا یا اہل حل و عقد (یعنی بااثر سرداران لشکر علماء و صلحاء وغیرہ) اس کی بیعت پر اجماع کر لیں یا ان میں سے کوئی اس کی بیعت کر لے تو جمہور کے نزدیک اس کا لازم پکڑنا واجب ہو جائے گا۔ امام الحرمین نے اس پر اجماع نقل کیا ہے واللہ العلم۔ یا کوئی شخص لوگوں کو بزور و جبر اپنی ماتحتی پر بےبس کر دے تو بھی واجب ہو جاتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر بیعت کر لیں تاکہ پھوٹ اور اختلاف نہ پھیلے۔ امام شافعی نے صاف لفظوں میں فیصلہ کیا ہے۔ اس بیعت کے وقت گواہوں کی موجودگی کے واجب ہونے میں اختلافات ہے بعض تو کہتے ہیں یہ شرط نہیں، بعض کہتے ہیں شرط ہے اور دو گواہ کافی ہیں۔ جبائی کہتا ہے بیعت کرنے والے اور جس کے ہاتھ پر بیعت ہو رہی ہے ان دونوں کے علاوہ چار گواہ چاہئیں۔ جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی نے شوریٰ کے چھ ارکان مقرر کئے تھے پھر انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مختار کر دیا اور آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہاتھ پر باقی چاروں کی موجودگی میں بیعت کی لیکن اس استدلال میں اختلاف ہے۔ واللہ اعلم۔
امام کا مرد ہونا، آزاد ہونا، بالغ ہونا، عقلمند ہونا، مسلمان ہونا، عادل ہونا، مجتہد ہونا، آنکھوں والا ہونا، صحیح سالم اعضاء والا ہونا، فنون جنگ سے اور رائے سے خبردار ہونا، قریشی ہونا واجب ہے اور یہی صحیح ہے۔ ہاں ہاشمی ہونا اور خطا سے معصوم ہونا شرط نہیں۔ یہ دونوں شرطیں متشدد رافضی لگاتے ہیں امام اگر فاسق ہو جائے تو اسے معزول کر دینا چاہیے یا نہیں؟ اس میں اخلاف ہے اور صحیح یہ ہے کہ معزول نہ کیا جائے کیونکہ حدیث میں آ چکا ہے کہ جب تک ایسا کھلا کفر نہ دیکھ لو جس کے کفر ہونے کی ظاہر دلیل اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ہو، اسی طرح خود امام اپنے آپ معزول ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں بھی اختلاف ہے۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ خودبخود آپ ہی معزول ہو گئے تھے اور امر امامت حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سونپ دیا تھا لیکن یہ عذر کے باعث تھا جس پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔ روئے زمین پر ایک سے زیادہ امام ایک وقت میں نہیں ہو سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب تم میں اتفاق ہو اور کوئی اگر تم میں جدائی ڈالنی چاہے تو اسے قتل کر دو خواہ کوئی بھی ہو۔ جمہور کا یہی مذہب ہے اور بہت سے بزرگوں نے اس پر اجماع نقل کیا ہے جن میں سے ایک امام الحرمین ہیں۔ کرامیہ(شیعہ) کا قول ہے کہ دو اور زیادہ بھی ایک وقت میں امام ہو سکتے ہیں جیسے کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں اطاعت کے لائق تھے۔ یہ گروہ کہتا ہے کہ جب ایک وقت میں دو دو اور زیادہ نبیوں کا ہونا جائز ہے تو اماموں کا جائز ہونا جائز کیوں نہ ہو؟ نبوت کا مرتبہ تو یقینا امامت کے مرتبے سے بہت زیادہ ہے (لیکن صحیح مسلم والی حدیث آپ ابھی اوپر چڑھ چکے ہیں کہ دوسرے کو قتل کر ڈالو۔ اس لئے صحیح مذہب وہی ہے جو پہلے بیان ہوا) امام الحرمین نے استاذ ابو اسحاق سے بھی حکایت کی ہے کہ وہ دو اور زیادہ اماموں کا مقرر کرنا اس وقت جائز جانتے ہیں جب مسلمانوں کی سلطنت بہت بڑی وسیع ہو اور چاروں طرف پھیلی ہوئی ہو اور دو اماموں کے درمیان کئی ملکوں کا فاصلہ ہو۔ امام الحرمین اس میں ترود میں ہیں، خلفائے بنی عباس کا عراق میں اور خلفائے بنی فاطمہ کا مصر میں اور خاندان بنی امیہ کا مغرب میں میرے خیال سے یہی حال تھا۔ اس کی بسط و تفصیل انشاء اللہ کتاب الاحکام کی کسی مناسب جگہ ہم کریں گے۔
(TAFSEER MOULANA SLAH UDDIN YOUSUF)
٣٠۔١ مَلاَئِکَۃُ (فرشتے) فرشتے اللہ کی نوری مخلوق ہیں جن کا مسکن آسمان ہے جو احکامات کے بجا لانے اور اس کی تحمید و تقدیس میں مصروف رہتے ہیں اور اس کے کسی حکم سے سرتابی نہیں کرتے۔
٣٠۔٢ خَلِیْفَۃُ سے مراد ایسی قوم ہے جو ایک دوسرے کے بعد آئے گی اور یہ کہنا کہ انسان اس دنیا میں اللہ تعالٰی کا خلیفہ اور نائب ہے غلط ہے۔
٣٠۔٣ فرشتوں کا یہ کہنا حسد یا اعتراض کے طور پر نہ تھا بلکہ اس کی حقیقت اور حکمت معلوم کرنے کی غرض سے تھا کہ اے رب اس مخلوق کے پیدا کرنے میں کیا حکمت ہے جب کہ ان میں کچھ ایسے لوگ بھی ہونگے جو فساد پھیلائیں گے اور خون ریزی کریں گے؟ اگر مقصود یہ ہے کہ تیری عبادت ہو تو اس کام کے لئے ہم تو موجود ہیں ہم سے وہ خطرات بھی نہیں جو نئی مخلوق سے متوقع ہیں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا میں وہ مصلحت بہتر جانتا ہوں جس کی بنا پر ان ذکر کردہ برائیوں کے باوجود میں اسے پیدا کر رہا ہوں جو تم نہیں جانتے کیونکہ ان میں انبیا، شہدا و صالحین بھی ہونگے۔ (ابن کثیر)
( MOULANA SHABIR AHMED USMANI
ف۱۳ اب ایک بڑی نعمت کا ذکر کیا جاتا ہے جو جملہ بنی آدم پر کی گئی اور وہ حضرت آدم علیہ السلام کی آفرنیش کا قصہ ہے جو تفصیل سے بیان کیا گیا اور ان کو خلیفتہ اللہ بنایا گیا۔ پہلی آیت میں جو خلق لکم مافی الارض جمیعا فرمایا تھا۔ اس میں کسی کو انکار پیش آئے تو قصہ حضرت آدم سے اس کا جواب بھی بخوبی ہوگیا۔
ف۱ ملائکہ کو جب یہ خلجان ہوا کہ ایسی مخلوق کہ جس میں مفسد اور خونریز تک ہوں گے ہم ایسے مطیع اور فرمانبردار کے ہوتے ان کو خلیفہ بنانا اس کی وجہ کیا ہوگی؟ تو بطریق استفادہ یہ سوال کیا۔ اعتراض ہرگز نہ تھا رہا یہ امر کہ ملائکہ کو بنی آدم کا حال کیونکر معلوم ہوا، اس میں بہت سے احتمال ہیں۔ جنات پر قیاس کیا یا حق تعالٰی نے پہلے بتا دیا تھا یالوح محفوظ پر لکھا دیکھا۔ یا سمجھ گئے کہ حاکم و خلیفہ کی ضرورت جبھی ہوگی جب ظلم و فساد ہوگا یا حضرت آدم کے قالب کو دیکھ کر بطور قیافہ سمجھ گئے ہوں (جیسا ابلیس نے حضرت آدم کو دیکھ کر کہا کہ بہکول ہونگے) اور ایسا ہی ہوا۔
ف۲ فرشتوں کو سردست بالا جمال یہ جواب دیا گیا کہ ہم خوب جانتے ہیں اس کے پیدا کرنے میں جو حکمتیں ہیں تم کو ابھی تک وہ حکمتیں معلوم نہیں ورنہ اس کی خلافت اور افضلیت میں شبہ نہ کرتے۔
( BRALVI - TAFSEER NAEEM UDDIN MURADABADI)
(ف53) خلیفہ احکام واوامرکے اجراء و دیگر تصرفات میں اصل کا نائب ہوتا ہے یہاں خلیفہ سے حضرت آدم علیہ السلام مراد ہیں اگرچہ اور تمام انبیاء بھی اللہ تعالٰی کے خلیفہ ہیں حضرت داؤد علیہ السلام کے حق میں فرمایا ( يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ) 38-ص:26) فرشتوں کو خلافت آدم کی خبر اس لئے دی گئی کہ وہ ان کے خلیفہ بنائے جانے کی حکمت دریافت کرکے معلوم کرلیں اور ان پر خلیفہ کی عظمت و شان ظاہر ہو کہ ان کو پیدائش سے قبل ہی خلیفہ کا لقب عطا ہوا اور آسمان والوں کو ان کی پیدائش کی بشارت دی گئی
مسئلہ : اس میں بندوں کو تعلیم ہے کہ وہ کام سے پہلے مشورہ کیا کریں اور اللہ تعالٰی اس سے پاک ہے کہ اس کو مشورہ کی حاجت ہو ۔
(ف54) ملائکہ کا مقصد اعتراض یا حضرت آدم پر طعن نہیں بلکہ حکمت خلافت دریافت کرنا ہے اور انسانوں کی طرف فساد انگیزی کی نسبت کرنا اس کا علم یا انہیں اللہ تعالٰی کی طرف سے دیا گیا ہو یا لوح محفوظ سے حاصل ہوا ہو یا خود انہوں نے جنات پر قیاس کیا ہو ۔
(ف55) یعنی میری حکمتیں تم پر ظاہر نہیں بات یہ ہے کہ انسانوں میں انبیاء بھی ہوں گے اولیاء بھی علماء بھی اور وہ علمی و عملی دونوں فضیلتوں کے جامع ہوں گے۔
---------------------------------------------------------------------------------------------------------
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْٓا اِلٰى بَارِىِٕكُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِنْدَ بَارِىِٕكُمْ ۭ فَتَابَ عَلَيْكُمْ ۭ اِنَّھٗ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ 54
اور جب موسیٰ نے اپنے قوم کے لوگوں سے کہا کہ بھائیو! تم نے بچھڑے کو (معبود) ٹھیرانے میں (بڑا) ظلم کیا ہے تو اپنے پیدا کرنے والے کے آگے توبہ کرو اور اپنے تیئں ہلاک کر ڈالو، تمہارے خالق کے نزدیک تمہارے حق میں یہی بہتر ہے، پھر اس نے تمہارا قصور معاف کر دیا، وہ بیشک معاف کرنے والا (اور) صاحب رحم ہے
(TARJUMA MOULANA FATHY MOUHAMMAD JAHLANDRI)
جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم بچھڑے کو معبود بنا کر تم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ اب تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع کرو، اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو، تمہاری بہتری اللہ تعالٰی کے نزدیک اسی میں ہے، تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی، وہ توبہ قبول کرنے والا اور رحم و کرم کرنے والا ہے۔ (١)
(MOULANA JUNAA GAREE)
اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے ف٢ اے قوم تم نے نقصان کیا اپنا یہ بچھڑا بنا کر سو اب توبہ کرو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف اور مار ڈالو اپنی اپنی جان ف٣ یہ بہتر ہے تمہارے لئے تمہارے خالق کے نزدیک پھر متوجہ ہوا تم پر ف٤ بیشک وہی ہے معاف کرنے والا نہایت مہربان،
(TARJUMA MEHMOOD UL HASAN)
اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم تم نے بچھڑا بناکر اپنی جانوں پر ظلم کیا تو اپنے پیدا کرنے والے کی طرف رجوع لاؤ تو آپس میں ایک دوسرے کو قتل کردو (ف۹۰) یہ تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک تمہارے لیے بہتر ہے تو اس نے تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ۔ (ف ۹۱)
(AHMED RAZA KHAN)
(TAFSEER IBN E KASEER)
سخت ترین سزا
یہاں ان کی توبہ کا طریقہ بیان ہو رہا ہے انہوں نے بچھڑے کو پوجا اور اس کی محبت نے ان کے دلوں میں گھر کر لیا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سمجھانے سے ہوش آیا اور نادم ہوئے اور اپنی گمراہی کا یقین کر کے توبہ استغفار کرنے لگے تب انہیں حکم ہوا کہ تم آپس میں قتل کرو۔ چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور اللہ تعالٰی نے ان کی توبہ قبول کی اور قاتل و مقتول دونوں کو بخش دیا۔ اس کا پورا بیان سورۃ طہ کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ فرمان کہ اپنے خالق سے توبہ کرو بتا رہا ہے کہ اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہو گا کہ تمہیں پیدا اللہ تعالٰی کرے اور تم پوجو غیروں کو۔ ایک روایت میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں حکم الٰہی سنایا اور جن جن لوگوں نے بچھڑا پوجا تھا انہیں بٹھا دیا اور دوسرے لوگ کھڑے رہ گئے اور قتل کرنا شروع کیا قدرتی طور پر اندھیرا چھایا ہوا تھا جب اندھیرا ہٹا تو انہیں روک دیا گیا۔ شمار کرنے پر معلوم ہوا کہ ستر ہزار آدمی قتل ہو چکے ہیں اور ساری قوم کی توبہ قبول ہوئی۔ یہ ایک سخت فرمان تھا جس کی ان لوگوں نے تعمیل کی اور اپنوں اور غیروں کو یکساں تہہ تیغ کیا یہاں تک کہ رحمت الٰہی نے انہیں بخشا اور موسیٰ علیہ السلام سے فرما دیا کہ اب بس کرو۔ مقتول کو شہید کا اجر دیا قاتل کی اور باقی ماندہ تمام لوگوں کی توبہ قبول فرمائی اور انہیں جہاد کا ثواب دیا۔ موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون نے جب اسی طرح اپنی قوم کا قتل دیکھا تو دعا کرنی شروع کی کہ اللہ اب تو بنی اسرائیل مٹ جائیں گے چنانچہ انہیں معاف فرما دیا گیا اور پروردگار عالم نے فرمایا کہ اے میرے پیغمبر مقتولوں کا غم نہ کرو وہ ہمارے پاس شہیدوں کے درجہ میں ہیں وہ یہاں زندہ ہیں اور غذا پا رہے ہیں اب آپ کو اور آپ کی قوم کو صبر آیا اور عورتوں اور بچوں کی گریہ و زاری موقوف ہوئی۔ تلواریں نیزے چھرے اور جھریاں چلنی بند ہوئیں آپس میں باپ بیٹوں بھائیوں، بھائیوں میں قتل و خون موقوف ہوا اور اللہ تو اب و رحیم نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔
(TAFSEER MOULANA SLAH UDDIN YOUSUF)
۔١ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شرک پر متنبہ فرمایا تو پھر انہیں توبہ کا احساس ہوا توبہ کا طریقہ قتل تجویز کیا گیا (فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ) 2۔ البقرۃ:54) (اپنے آپ کو آپس میں قتل کرو) کی تفسیریں کی گئی ہیں ایک یہ کہ سب کو دو صفوں میں کر دیا گیا اور انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کیا دوسری یہ کہ ارتکاب شرک کرنے والوں کو کھڑا کر دیا گیا جو اس سے محفوظ رہے تھے انہیں قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے قتل کیا۔ مقتولین کی تعداد ستر ہزار بیان کی گئی ہے (ابن کثیر و فتح القدیر)
( MOULANA SHABIR AHMED USMANI
ف۲ قوم سے مراد خاص وہ لوگ ہیں جنہوں نے بچھڑے کو سجدہ کیا۔
ف۳ یعنی جنہوں نے بچھڑے کو سجدہ نہ کیا تھا وہ سجدہ کرنے والوں کو قتل کریں اور بعض کا قول ہے کہ بنی اسرائیل میں تین گروہ تھے۔ ایک وہ جنہوں نے گوسالہ پرستی نہ کی اور دوسروں کو بھی روکا۔ دوسرے وہ جنہوں نے گوسالہ کو سجدہ کیا۔ تیسرے وہ جنہوں نے خود تو سجدہ نہ کیا مگر دوسروں کو منع بھی نہ کیا۔ فریق دوئم کو حکم ہوا کہ مقتول ہو جاؤ۔ تیسرے فریق کو حکم ہوا کہ ان کو قتل کرو تاکہ ان کے سکوت کرنے کی توبہ ہو جائے۔ اور فریق اول اس توبہ میں شریک نہیں ہوئے۔ کیونکہ ان کو توبہ کی حاجت نہ تھی۔
ف٤ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ مقتول ہو جانا ہی توبہ تھی یا توبہ کا تتمہ تھا جیسا کہ ہماری شریعت میں قتل عمد کی توبہ کے مقبول ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے آپ کو وارثان مقتول کے حوالے کر دے ان کو اختیار ہے بدلہ لیں یا معاف کریں۔
( BRALVI - TAFSEER NAEEM UDDIN MURADABADI)
(ف90) یہ قتل ان کے لئے کفارہ تھا۔
(ف91) جب بنی اسرائیل نے توبہ کی اور کفارہ میں اپنی جانیں دے دیں تو اللہ تعالٰی نے حکم فرمایا کہ حضرت موسٰی علیہ السلام انہیں گو سالہ پرستی کی عذر خواہی کے لئے حاضر لائیں حضرت ان میں سے ستر آدمی منتخب کرکے طور پر لے گئے وہاں وہ کہنے لگے اے موسٰی ہم آپ کا یقین نہ کریں گے جب تک خدا کو علانیہ نہ دیکھ لیں اس پر آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی جس کی ہیبت سے وہ مر گئے حضرت موسٰی علیہ السلام نے بتضرع عرض کی کہ میں بنی اسرائیل کو کیا جواب دوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں یکے بعد دیگرے زندہ فرمادیا مسئلہ: اس سے شان انبیاء معلوم ہوتی ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام سے '' لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ '' کہنے کی شامت میں بنی اسرائیل ہلاک کیے گئے حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد والوں کو آگاہ کیا
وَاِذْ نَجَّيْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ يَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْۗءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُوْنَ اَبْنَاۗءَكُمْ وَيَسْتَحْيُوْنَ نِسَاۗءَكُمْ ۭ وَفِىْ ذٰلِكُمْ بَلَاۗءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ 49
اور (ہمارے ان احسانات کو یاد کرو) جب ہم نے تم کو قوم فرعون سے مخلصی بخشی وہ (لوگ) تم کو بڑا دکھ دیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی
(TARJUMA MOULANA FATHY MOUHAMMAD JAHLANDRI)
اور جب ہم نے تمہیں فرعونیوں (١) سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب دیتے تھے جو تمہارے لڑکوں کو مار ڈالتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو چھوڑ دیتے تھے، اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی۔
(MOULANA JUNAA GAREE)
اور یاد کرو اس وقت کو جب کہ رہائی دی ہم نے تم کو فرعون کے لوگوں سے جو کرتے تھے تم پر بڑا عذاب ذبح کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو اور زندہ چھوڑتے تھے تمہاری عورتوں ف٦ کو اور اس میں آزمایش تھی تمہارے رب کی طرف سے بڑی ف٧
(TARJUMA MEHMOOD UL HASAN)
اور (یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے نجات بخشی (ف۸۲) کہ وہ تم پر برا عذاب کرتے تھے (ف۸۳) تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے (ف۸٤) اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی بلا تھی (یا بڑا انعام) (ف۸۵)
(AHMED RAZA KHAN)
(TAFSEER IBN E KASEER)
احسانات کی یاد دہانی
ان آیتوں میں فرمان باری ہے کہ اے اولاد یعقوب میری اس مہربانی کو بھی یاد رکھو کہ میں نے تمہیں فرعون کے بدترین عذابوں سے چھٹکارا دیا، فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا کہ بیت المقدس کی طرف سے ایک آگ بھڑکی جو مصر کے ہر ہر قطعی کے گھر میں گھس گئی اور بنی اسرائیل کے مکانات میں وہ نہیں گئی جس کی تعبیر یہ تھی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہو گا جس کے ہاتھوں اس کا غرور ٹوٹے گا اس کے اللہ کے دعویٰ کی بدترین سزا اسے ملے گی اس لئے اس ملعون نے چاروں طرف احکام جاری کر دئیے کہ بنی اسرائیل میں جو بچہ بھی پیدا ہو، سرکاری طور سے اس کی دیکھ بھال رکھی جائے اگر لڑکا ہو تو فوراً مار ڈالا جائے اور لڑکی ہو تو چھوڑ دی جائے۔ علاوہ ازیں بنی اسرائیل سے سخت بیگار لی جائے ہر طرح کی مشقت کے کاموں کا بوجھ ان پر ڈال دیا جائے۔ یہاں پر عذاب کی تفسیر لڑکوں کے مار ڈالنے سے کی گئی اور سورۃ ابراہیم میں ایک کا دوسری پر عطف ڈالا جس کی پوری تشریح انشاء اللہ سورۃ قصص کے شروع میں بیان ہو گی اللہ تعالٰی ہمیں مضبوطی دے ہماری مدد فرمائے اور تائید کرے آمین یسومونکم کے معنی مسلسل اور کرنے کے آتے ہیں یعنی وہ برابر دکھ دئیے جاتے تھے چونکہ اس آیت میں پہلے یہ فرمایا تھا کہ میری انعام کی ہوئی نعمت کو یاد کرو اس لئے فرعون کے عذاب کی تفسیر کو لڑکوں کے قتل کرنے کے طور پر بیان فرمایا تاکہ نعمتوں کی تعداد زیادہ ہو۔ یعنی متفرق عذابوں سے اور بچوں کے قتل ہونے سے تمہیں حضرت موسیٰ کے ہاتھوں نجات دلوائی۔ مصر کے جتنے بادشاہ عمالیق وغیرہ کفار میں سے ہوئے تھے ان سب کو فرعون کہا جاتا تھا جیسے کہ روم کے کافر بادشاہ کو قیصر اور فارس کے کافر بادشاہ کو کسری اور یمن کے کافر بادشاہ کو تبع اور حبشہ کے کافر بادشاہ کو نجاشی اور ہند کے کافر بادشاہ کو بطلیموس۔ اس فرعون کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا۔ بعض نے مصعب بن ریان بھی کہا ہے۔ عملیق بن اود بن ارم بن سام بن نوح کی اولاد میں سے تھا اس کی کنیت ابو مرہ تھی۔ اصل میں اصطخر کے فارسیوں کی نسل میں تھا اللہ کی پھٹکار اور لعنت اس پر نازل ہو پھر فرمایا کہ اس نجات دینے میں ہماری طرف سے ایک بڑی بھاری نعمت تھی بلاء کے اصلی معنی آزمائش کے ہیں لیکن یہاں پر حضرت ابن عباس، حضرت مجاہد، ابو العالیہ، ابو مالک سدی وغیرہ سے نعمت کے معنی منقول ہیں، امتحان اور آزمائش بھلائی برائی دونوں کے ساتھ ہوتی ہے لیکن بلوتہ بلاء کا لفظ عموماً برائی کی آزمائش کے لئے اور ابلیہ ابلا وبلاء کا لفظ بھلائی کے ساتھ کی آزمائش کے لئے آتا ہے یہ کہا گیا ہے کہ اس میں تمہاری آزمائش یعنی عذاب میں اور اس بچوں کے قتل ہونے میں تھی۔ قرطبی اس دوسرے مطلب کو جمہور کا قول کہتے ہیں تو اس میں اشارہ ذبح وغیرہ کی طرف ہو گا اور بلاء کے معنی برائی کے ہوں گے پھر فرمایا کہ ہم نے فرعون سے بچا لیا۔ تم موسیٰ کے ساتھ شہر سے نکلے اور فرعون تمہیں پکڑنے کو نکلا تو ہم نے تمہارے لئے پانی کو پھاڑ دیا اور تمہیں اس میں سے پار اتار کر تمہارے سامنے فرعون کو اس کے لشکر سمیت ڈبو دیا۔ ان سب باتوں کا تفصیل وار بیان سورۃ شعراء میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ عمرو بن میمون اودی فرماتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر نکلے اور فرعون کو خبر ہوئی تو اس نے کہا کہ جب مرغ بولے تب سب نکلو اور سب کو پکڑ کر قتل کر ڈالو لیکن اس رات اللہ تعالٰی کی قدرت سے صبح تک کوئی مرغ نہ بولا مرغ کی آواز سنتے ہی فرعون نے ایک بکری ذبح کی اور کہا کہ اس کی کلیجی سے میں فارغ ہوں اس سے پہلے چھ لاکھ قبطیوں کا لشکر جرار میرے پاس حاضر ہو جانا چاہئے چنانچہ حاضر ہو گیا اور یہ ملعون اتنی بڑی جمعیت کو لے کر بنی اسرائیل کی ہلاکت کے لئے بڑے کروفر سے نکلا اور دریا کے کنارے انہیں پا لیا۔ اب بنی اسرائیل پر دنیا تنگ آ گئی پچھے ہٹیں تو فرعونیوں کی تلواروں کی بھینٹ چڑھیں آگے بڑھیں تو مچھلیوں کا لقمہ بنیں۔ اس وقت حضرت یوشع بن نون نے کہا کہ اے اللہ کے نبی اب کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا حکم الٰہی ہمارا راہنما ہے، یہ سنتے ہی انہوں نے اپنا گھوڑا پانی میں ڈال دیا لیکن گہرے پانی میں جب غوطے کھانے لگا تو پھر کنارے کی طرف لوٹ آئے اور پوچھا اے موسیٰ رب کی مدد کہاں ہے؟ ہم نہ آپ کو جھوٹا جانتے ہیں نہ رب کو تین مرتبہ ایسا ہی کہا۔ اب حضرت موسیٰ کی طرف وحی آئی کہ اپنا عصا دریا پر مارو عصا مارتے ہی پانی نے راستہ دے دیا اور پہاڑوں کہ طرح کھڑا ہو گیا حضرت موسیٰ اور آپ کے ماننے والے ان راستوں سے گزر گئے انہیں اس طرح پار اترتے دیکھ کر فرعون اور فرعونی افواج نے بھی اپنے گھوڑے اسی راستہ پر ڈال دئیے۔ جب تمام کے تمام میں داخل ہو گئے پانی کو مل جانے کا حکم ہوا پانے کے ملتے ہی تمام کے تمام ڈوب مرے بنی اسرائیل نے قدرت الٰہی کا یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے کنارے پر کھڑے ہو کر دیکھا جس سے وہ بہت ہی خوش ہوئے اپنی آزادی اور فرعون کی بربادی ان کے لئے خوشی کا سبب بنی۔ یہ بھی مروی ہے کہ یہ دن عاشورہ کا تھا یعنی محرم کی دسویں تاریخ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ جب حضور علیہ السلام مدینہ شریف میں تشریف لائے تو دیکھا کہ یہودی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہیں پوچھا کہ تم اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا اس لئے کہ اس مبارک دن میں بنی اسرائیل نے فرعون کے ظلم سے نجات پائی اور ان کا دشمن غرق ہوا جس کے شکریہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ روزہ رکھا آپ نے فرمایا تم سے زیادہ حقدار موسیٰ علیہ السلام کا میں ہوں پس حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ بخاری مسلم نسائی ابن ماجہ وغیرہ میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔ ایک اور ضعیف حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس دن اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل کے لئے سمندر کو پھاڑ دیا تھا اس حدیث کے راوی زید العمی ضعیف ہیں اور ان کے استاد یزید رقاشی ان سے بھی زیادہ ضعیف ہیں۔
(TAFSEER MOULANA SLAH UDDIN YOUSUF)
آل فرعون سے مراد صرف فرعون اور اس کے اہل خانہ ہی نہیں بلکہ فرعون کے تمام پیروکار ہیں۔ جیسا کہ آگے ( وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ) 8۔ الانفال:54) ہے (ہم نے ال فرعون کو غرق کر دیا) یہ غرق ہونے والے فرعون کے گھر کے ہی نہیں تھے اس کے فوجی اور دیگر پیروکار بھی تھے۔ اس کی مزید تفصیل الاحزاب میں انشاء اللہ آئے گی۔
( MOULANA SHABIR AHMED USMANI
ف٦ فرعون نے خواب دیکھا تھا نجومیوں نے اس کی تعبیر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص پیدا ہوگا جو تیرے دین اور سلطنت کو غارت کر دے گا۔ فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جو بیٹا پیدا ہو اس کو مار ڈالو اور جو بیٹی ہو اس کو خدمت کے لئے زندہ رہنے دو، خدائے تعالٰی نے موسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا اور زندہ رکھا۔
ف۷ بلاء کے چند معنی آتے ہیں اگر ذٰلکُم کا اشارہ ذبح کی طرف لیا جائے تو اس کے معنی مصیبت کے ہوں گے اور اگر نجات کی طرف اشارہ ہے تو بلاء کے معنی نعمت کے ہوں گے اور مجموعہ کی طرف ہو تو امتحان کے معنی لئے جائیں گے۔
( BRALVI - TAFSEER NAEEM UDDIN MURADABADI)
(ف83) عذاب سب برے ہوتے ہیں۔ (سُوْۗءَ الْعَذَابِ) 2-البقرة:49) وہ کہلائے گا جو اور عذابوں سے شدید ہو اس لئے حضرت مترجم قُدِّ سَ سِرُّ ہ، نے ( برا عذاب) ترجمہ کیا ( کما فی الجلالین وغیرہ) فرعون نے بنی اسرائیل پر نہایت بےدردی سے محنت و مشقت کے دشوار کام لازم کیے تھے پتھروں کی چٹانیں کاٹ کر ڈھوتے ڈھوتے ان کی کمریں گردنیں زخمی ہوگئیں تھیں غریبوں پر ٹیکس مقرر کیے تھے جو غروب آفتاب سے قبل بجبر وصول کیے جاتے تھے جو نادار کسی دن ٹیکس ادا نہ کرسکا اس کے ہاتھ گردن کے ساتھ ملا کر باندھ دیئے جاتے تھے اور مہینہ بھر تک اسی مصیبت میں رکھا جاتا تھا اور طرح طرح کی بےرحمانہ سختیاں تھیں۔(خازن وغیرہ)
(ف84) فرعون نے خواب دیکھا کہ بَیْتُ الْمَقْدِ سْ کی طرف سے آگ آئی اس نے مصر کو گھیر کر تمام قبطیوں کو جلا ڈالا بنی اسرائیل کو کچھ ضرر نہ پہنچایا اس سے اس کو بہت وحشت ہوئی کاہنوں نے تعبیر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو تیرے ہلاک اور زوال سلطنت کا باعث ہوگا۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو قتل کردیا جائے دائیاں تفتیش کے لئے مقرر ہوئیں بارہ ہزار وبروایتے ستر ہزار لڑکے قتل کر ڈالے گئے اور نوّے ہز ار حمل گرادیئے گئے اور مشیتِ الہٰی سے اس قوم کے بوڑھے جلد جلد مرنے لگے قوم قبط کے رؤسانے گھبرا کر فرعون سے شکایت کی کہ بنی اسرائیل میں موت کی گرم بازاری ہے اس پر ان کے بچے بھی قتل کیے جاتے ہیں تو ہمیں خدمت گار کہاں سے میسر آئیں گے فرعون نے حکم دیا کہ ایک سال بچے قتل کیے جائیں اور ایک سال چھوڑے جائیں تو جو سال چھوڑنے کا تھا اس میں حضرت ہارون پیدا ہوئے اور قتل کے سال حضرت موسٰی علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔
(ف85) بلا امتحان و آزمائش کو کہتے ہیں آزمائش نعمت سے بھی ہوتی ہے اور شدت و محنت سے بھی نعمت سے بندہ کی شکر گزاری اور محنت سے اس کے صبر کا حال ظاہر ہوتا ہے اگر '' ذَالِکُمْ'' کا اشارہ فرعون کے مظالم کی طرف ہو تو بلا سے محنت و مصیبت مراد ہوگی اور اگر ان مظالم سے نجات دینے کی طرف ہو تو نعمت
No comments:
Post a Comment